Thatta Kedona

Culture is a Basic Need

کولون: ریشماں کی تانیں اور کے ٹو

Bookmark and Share

چھ اپریل کو جرمن شہر کولون میں ’اوریئنٹ‘ کے نام سے ایک روزہ تقریبات کے دوران جہاں گلوکارہ ریشماں کی آواز میں 
نغمے گونجتے رہے، وہیں شمالی پاکستان کے بلند و بالا پہاڑوں سے متعلق ایک فلم شو بھی دکھایا گیا۔


اتوار کے روز کولون کے راؤٹن شٹراؤخ ژوئشٹ میوزیم میں ان تقریبات کا آغاز صبح دَس بجے ہوا اور یہ شام چھ بجے اپنے اختتام کو پہنچیں۔ ان تقریبات پر ترک ثقافت کی چھاپ اگرچہ زیادہ گہری تھی تاہم وہاں ایشیا، عرب دنیا اور قفقاز کے خطّے سے بھی رنگا رنگ دستکاری مصنوعات اور رقص و موسیقی کے مظاہرے پروگرام کا حصہ رہے۔ ساتھ ساتھ مختلف 
مذاکروں میں ان خطّوں کے فن و ثقافت اور زبان و ادب کو بھی موضو ع بنایا گیا تھا۔


اُناسی سالہ جرمن خاتون سینتا سِلّر، جنہوں نے بیس سال سے زائد عرصہ پہلے پاکستانی صوبہء پنجاب کے گاؤں ’ٹھٹہ غلام کا دھیرو کا‘ میں دستکاری منصوبے ’ٹھٹہ کھڈونا‘ کی بنیاد رکھی تھی اُناسی سالہ جرمن خاتون سینتا سِلّر، جنہوں نے بیس سال سے زائد عرصہ پہلے پاکستانی صوبہء پنجاب کے گاؤں ’ٹھٹہ غلام کا دھیرو کا‘ میں دستکاری منصوبے ’ٹھٹہ کھڈونا‘ کی بنیاد رکھی تھی جہاں ایک طرف دستکاری مصنو عات فروخت ہوتی رہیں، وہیں ان ایک روزہ تقریبات کو دیکھنے کے لیے آنے والے جرمن شہریوں کی دلچسپی کے لیے ’اوریئنٹل‘ یعنی ’مشرقی‘ رقص و موسیقی کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا۔ پہلے ایک ترک طائفے نے رقص پیش کیا، جس کے بعد قفقاز کے خطّے جارجیا کے فنکاروں نے حاضرین کی تالیوں کی سنگت میں اپنے علاقائی رقص کا مظاہرہ کیا۔ درمیان درمیان میں پس منظر موسیقی کے طور پر دیگر پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ساتھ ریشماں کی تانیں بھی گونجتی رہیں۔


اس دوران مختلف خطّوں کی دستکاری مصنو عات کے جو اسٹال لگائے گئے تھے، اُن میں ’ڈالز آف دی ورلڈ‘ نام کا وہ اسٹال بھی تھا، جہاں افریقی ملک کیمرون اور جنوبی امریکی ملک کولمبیا کی گڑیاؤں کے ساتھ ساتھ پاکستانی صوبہء پنجاب کے گاؤں ’ٹھٹہ غلام کا دھیرو کا‘ میں تیار کردہ مصنوعات بھی رکھی گئی تھیں۔ اس اسٹال پر اُناسی سالہ جرمن ڈیزائنر اور سماجی کارکن سینتا سلّر دلچسپی رکھنے والے جرمنوں کو اس گاؤں میں گزشتہ دو عشروں سے زیادہ عرصے سے جاری اُس پاک جرمن ترقیاتی منصوبے کی تفصیلات بتا رہی تھیں، جس کی بنیاد خود اُنہوں نے 1991ء میں اپنے شوہر نوربرٹ پنچ کے ساتھ مل کر رکھی تھی۔

ان تقریبات کے دوران عجائب گھر کے سینما ہال میں ’ٹریکنگ اِن پاکستان‘ کے نام ے ایک فلم شو بھی دکھایا گیا۔ جرمنی
سے تعلق رکھنے اُنسٹھ سالہ کوہ پیما اور مہم جُو مشائل بِیک نے اپنے اس شو کو ’لائیو رپورتاژ‘ کا نام دیا تھا، جس میں وہ ساتھ ساتھ سینما ہال میں موجود دو سو سے زائد حاضرین کو اسکرین پر چلتی سلائیڈز اور ڈرامائی متحرک مناظر کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتے رہے


مشائل بِیک پہلی مرتبہ سن 1981ء میں پاکستان گئے تھے اور تب سے یہ ملک اُن کے لیے ایک طرح سے دوسرا وطن بن چکا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ تب سے اب تک متعدد مرتبہ یورپی بالخصوص جرمن سیاحوں کے گروپوں کو پاکستان کے وہ بلند و بالا پہاڑ دکھانے لے جا چکے ہیں، جو ’ارضی جنت‘ کے مناظر پیش کرتے ہیں۔ اُن کے فلم شو میں کے ٹو، راکاپوشی اور نانگا پربت جیسی بلند و بالا چوٹیوں کے مسحور کر دینے والے مناظر دکھائے گئے تھے۔


مشائل بِیک نے بتایا کہ ایک دَس رکنی سیاح گروپ کے لیے تقریباً اَسّی قُلیوں کی ضرورت پڑتی ہے، جنہیں وہ بلتستان اور ہنزہ سے اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ بِیک نے بتایا کہ عام طور پر دو ہفتے جاری رہنے والی سیر و سیاحت کے دوران یہ قُلی اتنا کما لیتے ہیں، جتنا کہ بقول اُن کے لاہور کے کسی اسکول کا کوئی اُستاد پورے ایک مہینے میں کماتا ہے۔ اُنہوں نے حاضرین کو بتایا کہ سوائے قطبین کے دنیا کے کسی بھی ملک میں اتنی بڑی مقدار میں برف نہیں پائی جاتی، جتنی کہ پاکستان میں۔ بِیک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چھ ہزار میٹر سے بلند کئی ایسی چوٹیاں ہیں، جنہیں اب تک کوئی نام بھی نہیں دیا گیا ہے۔ DW.DE

Labels: ,

posted by S A J Shirazi @ 9:05 AM,

0 Comments:

Post a Comment

<< Home


Popular Posts

How I Work From Home and Make Extra Money?

Why Everyone Blogs and Why You Too Should

Business {Blogging} Proposal

Spencer's Pashmina

Subscribe by Email

Blog Roll