Thatta Kedona

Culture is a Basic Need

گاؤں کی گڑیا

بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت لڑکی، دلہن بنی گڑیا کو دونوں ہاتھوں میں تھامے مبہوت ہو کر دیکھے جا رہی تھی ۔ گاؤں کے لوگ بڑے شوق سے اس منظر کو اپنی آنکھوں پر سجائے مسکرا رہے تھے ۔اس گاؤں میں جو بھی آتا تھا، انہی گڑیاؤں کا ذکر سن کر آتا تھا۔برسوں سے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔بڑے بڑے لوگ آتے تھے ،ٹی وی اور فلموں والے بھی آتے تھے اور اس گاؤں کی منظر کشی کرتے تھے ۔پنجاب کے عین وسط میں واقع یہ گاؤں اب دنیا بھر میں گڑیاؤں کے گاؤں کے طور پر مشہور ہو چکا تھا۔آج بھی ایک ٹی وی چینل کی ٹیم اس گاؤں پر ایک دستاویزی فلم کی شوٹنگ کے لیے آئی ہوئی تھی۔ دسمبرکے سرد دن تھے لیکن بڑی اچھی دھوپ نکلی ہوئی تھی اور اس نرم سی ٹھنڈی گرمی میں مشہور ماڈل نیناں گل دلہن بنی پنجابی گڑیا کو دیکھ کر واری واری جا رہی تھی ۔وہ خود کو پنجابی دلہن کے روپ میں دیکھ رہی تھی ۔اس کی ماں پنجابی نہیں تھی لیکن وہ دلہن پنجاب کی بنی تھی اور نیناں گل کے اندر باہر پنجاب بولتا تھا، کبھی لٹھے دی چادر کے سروں میں، کبھی میرا لونگ گواچا اور کبھی بلے بلے کے ناچتے سازوں میں۔نیناں نے پنجابی دلہن گڑیا کو ایسی جپھی ڈال رکھی تھی کہ جیسے آج یہ گڑیا اس کے ساتھ ہی جائے گی ،لیکن ٹیم کے پاس وقت کم تھا، تیزی سے شوٹنگ کی گئی اور نیناں گل پنجاب کی دلہن گڑیا کو اپنی آنکھوںمیں سموئے گاؤں سے رخصت ہو گئی۔
گاؤں پر ابھی شام اتری ہی تھی کہ رات ہو گئی ۔گھپ اندھیرا بصارت کو دھوکہ دیتا ہوا ہر سو پھیل گیا تھا اور گاؤں کے کچھ گھروں میں کہیں زرد اور کہیں سفید بلب ایسے روشن تھے کہ اندھیرا ذرا ذرا سا پیچھے کو ہٹ گیا تھا۔ان گھروں کے نیم وا جھروکوں اور کونے کھدروں سے موبائل فون کی سکرین بھی کہیں کہیں جھلکتی تھی جو نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ہاتھوں میں بے قراری سے رنگ بدلتے تھے۔ڈھلتی عمر کے لوگ کھانا کھا کے سو چکے تھے۔یہی وہ سب لوگ تھے جو گاؤں کی مٹی کی زرخیزی کوبھی قائم رکھتے تھے اور خوبصورت گڑیاں بھی تخلیق کرتے تھے ۔ٹی وی چینل والے سارا دن متحرک رہے تھے اور اب ان کی توجہ کا اہم ترین مقام گڑیاؤں کا دستکاری مرکز بھی بند ہو چکا تھا۔خاموشی دھیرے دھیرے سارے ماحول پر اتر رہی تھی اور ساتھ ساتھ گہری دھند بھی اتنی نیچے اتر آئی کہ چند قدموں کے فاصلے پر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔اب گاؤں مکمل طور پر سفید اور سرمئی چادر میں لپٹا ہوا تھا۔گلیوں میں پھرتے ہوئے آوارہ کتے بھی سردی سے کانپتے ہوئے گرم پناہ گاہوں میں گھستے روُں روُں کے دم توڑتے سروں میں اپنی موجودگی کا ہلکا سا احساس دلاتے تھے۔

دستکاری کے مرکز میں جہاں گڑیائیں بڑی نفاست سے سجا کر رکھی گئی تھیں، وہاں بھی اندھیرا تھا۔روز ایسے ہی ہوتا تھا۔مرکز صبح کھلتا اور شام کو بند ہو جاتا۔آج بھی سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔جب شام ڈھل جاتی، اندھیرا ہو جاتا اور کسی کے آنے کا امکان نہ ہوتا تو یہ سجی سجائی گڑیائیں پہلے ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھتیں اور پھر ہر طرف زندگی کی ایک لہر دوڑ جاتی۔کھڑکیوں کی درزوں میں سے چاند کی کرنیں کمرے کو اتنا روشن کر دیتیں جو گڑیاؤں کی دنیا متحرک ہونے کے لیے کافی ہوتا۔دھیرے دھیرے گڑیائیں شیشے کی ٹاپ والی وسطی میز پر آ جاتیں اور پھر ان کے درمیان باتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔وہ آپس میں کھیلتی بھی تھیں اور عام طور پر لڈی رقص بہت پسند کرتیں۔محفل کا اختتام عام طور پر گانوں کے مقابلے پر ہوتا۔ہر گڑیا اپنے علاقائی گانے سنانا پسند کرتی ۔کالاشی، بلتستانی، کشمیری، پنجابی، سندھی اور کوچی گڑیائیں اپنے اپنے علاقے کے گیت سناتیں اور سب خوب محظوظ ہوتے۔گڑیاؤں کے علاوہ دستکاری مرکز کے باقی تمام کردار بھی ان لمحات میں زندہ ہوتے اور وہ بھی اس خوبصورت منظر سے بھرپور لطف اندوز ہوتے۔

جب سے ٹی وی ٹیم واپس گئی تھی، فضا میں عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی۔شاید سارے دن کی مصروفیت نے سب کو تھکا دیا تھا۔اس کے باوجود نیناں گل کی مہکتی ہوئی خوشبو بھی شوٹنگ کے تمام مقامات پر جیسے ٹھہر گئی تھی۔اس کی خوشبو دستکاری مرکز میں بھی موجود تھی اور پنجابی دلہن گڑیاکے جسم و جاں سے بھی اٹھ رہی تھی۔دستکاری مرکز کے باہر کی دنیا اب گہری نیند میں تھی اور اب کسی بھی وقت گڑیائیں اپنی محفل سجانے والی تھیں۔چاند کی چنچل کرنیں کمرے کے گہرے اندھیرے کو سنہرا کر چکی تھیں لیکن ساری گڑیائیں ابھی تک ساکت تھیں۔کوئی ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔جب کافی سمے بیت گیا توپنجابی دلہن نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولیں، اس کی نگاہوںمیں مستی تھی اور وہ خوشبو بھرے غرارے کو سنبھالتی ہوئی آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگی۔وہ وسطی میز کے عین درمیان میں جا کھڑی ہوئی اور اوپر اپنی ساتھی گڑیاؤ¶ں کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا۔کسی بھی گڑیا نے جواب نہیں دیا۔عین اس لمحے چاند کی ایک چہکتی ہوئی روشن کرن نے دلہن پر ہالہ بنالیا اور اس کے سحر میں جکڑی دلہن اب مستی اور جنون میں یوں رقصاں تھی جیسے وارث شاہ کی ہیر کے پاؤ¶ں تھرکتے تھے اور وہ دائرے میں گھومتی ہوئی گاتی تھی، تب اس کا غرارہ ایک لہرمیں اوپر اٹھتا اور دوسری لہر میں نیچے آتا۔ایسے میں پنجابی دلہن کے سروں میں کوئی جادو بولتا تھا۔ اسی نازک دل دے لوگ ہاں،ساڈا دل نہ یار دکھایا کر

نہ جھوٹے وعدے کیتا کر، نہ جھوٹیاں قسماں کھایا کر

تینوں کنی واری میں آکھیاں اے، مینو ول ول نہ ازمایا کر

مینو ول ول نہ ۔۔۔۔۔۔ مینو ول ول

مینو.....

ماحول میں صرف پنجابی دلہن کا وجود متحرک تھا ، باقی ہر سو خاموشی کی برف جمی تھی اور جب اس کی آواز نیچے کو اتر رہی تھی تو اچانک کئی گڑیائیں ایک دم اکٹھے چیخ اٹھیں، بس کرو، بس کرو ۔۔۔

رقص تھم گیا، حیرت کا سناٹا پورے منظرپر غالب آگیا۔بس کرو کی چیخوں کے پس منظر میں سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔پنجابی گڑیا نے آنکھیں اٹھاکر اوپر دیکھا تو ساری گڑیائیں رو رہی تھیں۔وہ حیران رہ گئی، یہ سب اس کی سہیلیاں تھیں۔اس نے بہت پریشانی سے پوچھا، کیا ہوا، تم کیوں رو رہی ہو؟کچھ دیر تک کوئی نہیں بولا۔پھر سندھی گڑیا نے جیسے سب کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ تم بہت مغرور ہو گئی ہو،اس لیے تم اب ہماری دوست نہیں ہو۔تمہیں آج نیناں گل جس طرح پیار کر رہی تھی اور ہم سب بری طرح نظر انداز ہو رہے تھے، اس سے ہم سب بہت دل برداشتہ ہیں۔

پنجابی گڑیا کو بہت افسوس ہوا، کہنے لگی تم لوگوں کو شدید غلط فہمی ہوئی ہے۔نیناں نے اگرچہ مجھے بہت پسند کیا، لیکن وہ مجھے ساتھ تھوڑے لے گئی، میں تو تمہارے درمیان موجود ہوں۔نیناں کا کیا ہے، وہ تو اب تک مجھے بھول چکی ہو گی اور اپنے اگلے پراجیکٹ کے بارے میں سوچ رہی ہو گی۔ سندھی گڑیا نے کہا، نہیں یہ صرف آج کی بات نہیں،تمہاری وجہ سے ہم سب سے ہمیشہ زیادتی ہوتی رہی ہے ۔تمہیں دادی سینتا کا خاص پیار حاصل ہے، وہ جب بھی یہاں آتی ہیں، تمہیں گود میں لیے پھرتی ہیں۔ہمیں تو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔اس پر کالاشی گڑیا نے سندھی گڑیا کو ٹوک دیا، کہنے لگی، دادی سینتا کو بیچ میں نہ لاؤ¶، وہ بہت اچھی اور مہربان ہستی ہیں،وہ ہم سب سے یکساں پیار کرتی ہیں۔میری پنجابی سہیلی، ہمیں تم سے صرف یہ شکایت ہے کہ یہاں جو بھی آتا ہے، تمہیں سب سے زیادہ پسند کرتا ہے۔تمہاری مانگ سب سے زیادہ ہے،صرف اس لیے کہ تم پنجابی ہو۔

اس پر پنجابی گڑیا کو بہت غصہ آیا، کہنے لگی، ہاں میں پنجابی ہوں، مجھے اپنے پنجابی ہونے پر فخر ہے کیونکہ ہم کھلے دل اور کھلی بانہوں وا لے لوگ ہیں۔تم لوگوں نے مجھ پر شک کیا ہے، حالانکہ میرے دل میں کبھی ایسی سوچ نہیں ابھری تھی۔یہ کہتے کہتے دلہن رونے لگی۔پھر ایک وقفے کے بعد ہچکیاں لیتے ہوئے کہنے لگی، کل بابا ماجد آئیں گے تو میں ان سے شکایت کروں گی۔

کُوچی گڑیا اس ساری لڑائی میں اب تک خاموش تھی، ایک دم اونچی آواز میں کہنے لگی، ہاں ہاں، تم بابا ماجد کو لگا لو شکایت، ہمیں معلوم ہے کہ وہ بھی تمہاراہی ساتھ دیں گے کیونکہ وہ خود بھی تو پنجابی ہیں،وہ بھلا ہمارا ساتھ کیوں دیں گے؟ کوچی کی اس بات پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ساری گڑیائیں نیچے اتر آئیں اور چیخ چیخ کر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو گئیں۔ہر کوئی بول رہا تھا، لیکن کشمیری گڑیا بالکل خاموش تھی۔

بابا ماجد اسی گاؤ¶ں کا رہنے والا تھا۔گاؤ¶ں کی مٹی اور قدرت کی خوبصورتی کو مصور کرنے کی بھرپورصلاحیتوں سے مالامال،برسوں پہلے جب وہ نوجوان تھاتو اعلٰی تعلیم کے لیے یورپ چلا گیا تھا۔وہاں اسے آرٹ کالج میں ایک مہربان استاد ملی جس نے اس کی زندگی کو ایسی ڈگر پر ڈال دیا جو خوابوں کی تکمیل تک لے جاتی ہے۔سینتا نے نہ صرف اس کے قدرتی ٹیلنٹ کو اجاگر کیا بلکہ اس کے گاؤ¶ں کی کہانی سن کر اس کی حالت بدلنے کا خواب بھی دکھایا، اسے پورا کرنے کا راستہ بھی بتایا اور خود بھی ساتھ چلنے کا وعدہ کیا۔یہ صرف وعدہ ہی نہیں تھا، سینتا نے پورا بھی کیا۔وہ اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان آئی اور ماجد کے گاؤ¶ں کا دورہ کیا۔وہ کئی دن وہاں رہی اور گاؤں کے رہن سہن اور لوگوں کے معاشی معاملات کا جائزہ لیا۔یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کو پہنچنے کا اپنا کوئی راستہ نہیں تھا۔نہ بجلی تھی اور نہ دوسری بنیادی سہولتیں۔سینتا نے ایک ساتھ کئی منصوبے سوچ لیے۔ان میں گاؤں کی خواتین کی معاشی حالت بہتر بنانے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔اس کے لیے خواتین کو جدید انداز میں گڑیائیں بنانے کا فن سکھایا گیا۔یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ گاؤں ہی گڑیاؤں کے نام سے مشہور ہو گیا۔سال گزرتے رہے، گاؤں ترقی کرتا رہا، سینتا بوڑھی ہو گئی لیکن گاؤں کی فلاح و بہبود میں برابر دل چسپی لیتی رہی۔اب اسے گڑیاؤں کی دادی ماں کہتے تھے۔ماجد کے بالوں میں بھی برف اتر آئی تھی اور کبھی یورپ اور کبھی گاؤں میں زندگی کے شب و روز گزار رہا تھا۔اس کی زندگی کا محور اس کا گاؤں ہی تھا اوروہ گڑیاؤں کا بابا تھا۔

جن لمحات میں گڑیائیں آپس میں جھگڑ رہی تھیں، گہری نیند میں سوئے ماجد کی آنکھ اچانک کھل گئی۔دور کسی مسجد میں فجر کی اذان کی آواز سنائی دے رہی تھی اور اس کے کمرے کی کھڑکیوںسے ابھرتی صبح کے آثار جھلک رہے تھے۔بے کلی کیوں ہے، اسے سمجھ میں نہیں آئی۔وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر سو گیا۔دن چڑھنے پر وہ معمول کے مطابق دستکاری مرکز میں پہنچا۔سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ساری گڑیائیں شان و شوکت اور پوری تمکنت سے ساتھ سجی ہوئی تھیں۔کچھ غیر ملکی آئے ہوئے تھے اور انہوں نے کافی خریداری کر لی تھی۔مینیجر بہت خوش نظر آ رہا تھا،اس نے بتایا کہ سندھی اور کوچی گڑیا کے سات آٹھ آن لائن آرڈرز آئے ہوئے ہیں۔ماجد کو اس خبر سے بہت خوشی ہوئی اوروہ بے اختیارسندھی گڑیا کے پاس گیا اور اسے اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔وہ بڑے پیار سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔اسے سندھی گڑیا سے اس کی تخلیق کے دن سے ہی پیار تھا۔اس گڑیا کو دیکھتے ہی اسے سندھ کی قدیم تہذیب موہنجو داڑو کا خیال آتا تھا۔خود اس کا اپنا گاؤں بھی ہڑپہ کی قدیم تہذیب کے گرد و نواح میں تھا۔

بابا ماجد نے کوچی گڑیا کو بھی پیار کیا اور باقیوں کو سر سری سا ہیلو کرتے ہوئے مینیجر کے پاس جا بیٹھے اور انتظامی امور کے بارے گفتگو کرنے لگے۔یہ سب ایک معمول تھا۔بعد میں بابا ماجد نے گاؤں کا چکر لگایا اور پھر گھر کو لوٹ گئے۔وہ ان دنوں اپنا زیادہ وقت بیمار والدہ کے پاس گزارتے تھے۔ان کی والدہ نے گاؤ¶ں کی حالت بدلنے میں بہت فعال کردار ادا کیا تھا۔بستر سے لگنے کے باوجود وہ ہر اہم معاملے کے بارے میں پوچھتی رہتی تھیں۔

اُس روزپھر شام ہوئی اور دستکاری مرکز میں گڑیاؤں کو اپنی محفل جمانے کا موقع ملا۔سندھی گڑیا بہت خوش نظر آرہی تھی جب کہ پنجابی دلہن بالکل خاموش تھی۔آج بھی ماحول میں بہت تناؤ¶تھا۔بس کسی کے بات کرنے کی دیر تھی کہ کل رات کی طرح کی گھمسان کی جنگ شروع ہو جاتی۔پنجابی گڑیاسوچ رہی تھی کہ بابا امجد نے اسے نظر انداز کر کے اچھا نہیں کیا۔اسے لڑائی میں فائدہ نظر نہیں آ رہا تھا، اس لیے اس نے ارادہ کیا کہ وہ دادی سینتا کو خط لکھے گی اور خاص طور پر سندھی گڑیا کی شکایت کرے گی۔

باقی گڑیائیں بھی اسی نہج پر سوچ رہی تھیں۔ان کا خیال تھا کہ بابا ماجد بدل گئے ہیں۔اس سوچ پر کالاشی گڑیا نے سب کو شرم دلائی کہ ان کی والدہ اور گاؤں کی خالہ جان بیمار ہیں اور آج کل بابا اپنا زیادہ وقت انہیں دیتے ہیں۔ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنے کی ضرورت ہے۔اس پر سندھی گڑیا شیشے کی میز پر اتر آئی اور بولی مجھے شکایت ہے کہ پنجابی دلہن کے کپڑے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں اور یہ نا انصافی ہے۔اس پرکشمیری گڑیا بھی میز پر آ گئی اور کہا کہ مجھے بھی یہی شکایت ہے۔اس پر پھر گرما گرم بحث شروع ہو گئی اور سب ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو گئے۔اس انتہائی تلخ ماحول میں پنجابی دولہا نیچے اترا اور اس نے بیچ بچاؤکرا کے سب کو اپنی اپنی جگہ پر جانے کا حکم دیا۔تھوڑی دیر میں میدان صاف ہو گیا کیونکہ سب گڑیائیں پنجابی دولہا سے ڈرتی تھیں اور اس سے کچھ کچھ پیار بھی کرتی تھیں۔وہ کم بولتا اور اپنا رعب قائم رکھتا۔ تاہم عارضی امن و امان مسئلے کا حل نہیں تھا۔ رات گہری ہو گئی تھی اور ساری گڑیائیں اپنی جگہ پر چلی تو گئیں لیکن سسکیاں بھرنے اور کمزور سی چیخیں مارنے کی آوازیں ابھی تک ماحول کو کشیدہ کیے ہوئے تھیں اورسوئے ہوئے بابا ماجد کو سخت بے قرار کرتی تھیں۔شیشے کی میز پر صرف پنجابی دلہن آلتی پالتی مارے اکیلی منہ بسور کے بیٹھی تھی۔ وہ سب سے ناراض تھی،اپنے دولہا سے بھی کہ اس نے اپنی دلہن کی داد رسی کیوں نہیں کی۔وہ غم کے مارے دھیمے سروں میں ہیر وارث شاہ گنگنانے لگی......

ڈولی چڑھ دیاں ماریاں ہیر چیکاں ۔۔۔۔۔

سب اداس ہوئے لیکن کسی نے اپنے موقف سے ہٹنا گوارہ نہ کیا۔پنجابی دلہن گاتی رہی اور بابا ماجد بار بار کروٹیں بدلتے تھے۔ انہیں بہت بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔رات گھنی اندھیری تھی، دھند نے چاند تاروں کی روشنی کو بھی چھپا دیا تھا، چندقدموں سے آگے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن بابا ماجد اندھا دھند دستکاری کی جانب لپک رہا تھا۔اس کے قدموں کی دھمک سے اڑتی دھول سرمئی دھند کو اور گہرا کرتی تھی۔مدھم مدھم جانی پہچانی آواز وہیں سے آرہی تھی جو ماجد کو بے کل ،بے چین کرتی تھی۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دادی سینتا اس وقت یہاں موجود ہوگی۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازے کو ذرا سا سرکایا،اندر بہت ہلکی سفید روشنی تھی جو ایک منے سے دودھیا بلب سے پھوٹتی تھی۔ساری گڑیائیں وسطی میز پر اکٹھی تھیں۔ان کے سر جھکے ہوئے تھے اور وہ کچھ ڈری سہمی اور کچھ شرمندہ سی لگتی تھیں۔دستکاری کے باقی تمام کردار بھی قریب قریب سرک آئے تھے اور وہ سب با ادب کھڑے تھے۔ایک سفید بالوں والی با وقار غیر ملکی خاتون کھڑی تھیں جس نے پاکستانی لباس پہن رکھا تھا۔اس لباس کو ماجد نہ پہچانتا تو اور کون پہچانتا۔آسمانی نیلے رنگ کا یہ لباس گاؤں کی خواتین نے خاص طور پر اسی مہربان خاتون کے لیے کروشیے سے بن کر سیا تھا اور ماجد کی اماں جنہیں سب خالہ کہتے تھے ،نے اس کے پچھلی بار گاؤں آنے پر تحفے میں دیا تھا۔ماجد کے دل کی دھڑکنیں تھمی ہوئی تھیں۔ہاں یہ دادی سینتا ہی تھی۔وہ بڑے پیار سے گڑیاؤں سے کہہ رہی تھی کہ لڑناجھگڑنا دو طرح کا ہوتا ہے، ایک پیار میں اور دوسرا غصے میں۔ یہ دونوں جھگڑے جیسے شیشے کی میز پر واقع ہوتے ہیں۔گر شیشہ ٹوٹنے سے بچ گیاتو پیار باقی اور اگر شیشہ ٹوٹ گیا یا دراڑ آگئی تو تعلق ختم۔یاد رکھو ٹوٹا ہوا شیشہ کبھی جڑ نہیں سکتا۔

”تمہیں میں نے نہیں بنایا، تم سب کو قدرت نے بنایا ہے۔تم سب قدرت کے حسن کی تصویریں ہو۔تم میں سے کوئی ایک دوسرے سے افضل نہیں، کسی کو کسی پر ترجیح نہیں۔ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ تم سب ایک ہی مٹی سے بنی ہو۔یاد رکھو میری بیٹیو، تم سب اپنی اپنی مٹی کی تصویر ہو۔کوئی کشمیر کی ہے، کوئی سندھ کی زمین سے پھوٹی ہے، کوئی پنجابن ہے اور کوئی کالاشی، بلتساتی اور کوچی ہے۔تم سب کہنے کومختلف علاقوں کی عکاس ہو،لیکن اصل میں تم سب کے قدموں کی زمین ایک ہی ہے۔یہ زمیں بہت ہی تھوڑی سی گہرائی میں اتر کر کسی ایک علاقے کی زمین نہیں رہتی۔بس نیچے سے ایک تہہ ملتی ہے جو اس کے اوپر کی مٹی کو پنجاب، سندھ، کشمیر بنا دیتی ہے اور یہ جو جغرافیائی تقسیم ہے صرف اوپر اوپر کی زمین پر خود ساختہ کھینچی ہوئی لکیروں کی عکاس ہے ورنہ نیچے کی زمین ساری دنیا کی ایک ہی ہے۔ اوپر کی مٹی کو انسانوں نے ملکوں ، صوبوں، شہروں اورقصبوں میں بانٹ لیا لیکن یاد رکھو، تم سب اپنے اپنے علاقے کے گاؤں کی ثقافت کی نمائندہ ہو نہ کہ شہروں کی۔ شہر تنگ ہوتے ہیں اور بنتے بگڑتے رہتے ہیں جب کہ گاؤں دلوں کی وسعت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ، قدرت کی اصلی خوبیوں سے مالا مال اور ہمیشہ زندہ رہتے ہیں چاہے اِدھر اُدھر کا جغرافیہ کتنا ہی تبدیل کیوں نہ ہو جائے۔پوری دنیا گھوم پھر کے دیکھ لو، ہر جگہ گاؤں اور گاؤں کے لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں، سادہ، دیانت دار اورمحنتی۔ پنجاب کے اِس خوبصورت گاؤں نے تم سب کو اکٹھا کیا ہے اور تم سب اِس سے جڑی ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ تم ساری دنیا میں اپنے اپنے گاؤں کی پہچان بھی ہو۔“

”میرے بچو، زندگی بہت خوبصورت ہے اوراسے لڑائی جھگڑے میں ضائع نہ کرنا۔پیار کے گیت گانا اور اپنے کانچ ایک توازن کے ساتھ قائم رکھنا۔شیشے کی یہ میز تمہارے بابا ماجد نے بڑے پیار سے بنوائی تھی اور اب تم روز شام کو اس پر لڈی ڈالتی ہو تو بابا بہت خوش ہوتے ہیں۔“ ماجد کی آنکھوں میں آنسو تھے، دادی سینتا نے مڑ کر دیکھا اور ماجد کے لیے اپنے بازو پھیلا دیے۔دونوں تخلیق کاروں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔گڑیاؤں کی آنکھوںمیں بھی نمی تھی۔سینتا اور ماجد شیشے کی میز کے قریب رکھی کرسیوں میں بیٹھ گئے اور سینتا نے ایک لمبا سانس لیا اور ماجد کا ہاتھ پکڑ کر گڑیاؤں سے مخاطب ہوئی، ”یہ نہ ہوتا تو یہ سب کچھ ایسے نہ ہوتا، اس کے جنون اور اس کی نہ ختم ہونے والی لگن، جستجو اور محنت نے اس کے گاؤں کا ناک نقشہ ہی بدل دیا۔یہ ایک دو دنوں کی بات نہیں، یہ برسوں کا قصہ ہے۔یہ سب کچھ اسی کے خواب کی تعبیر ہے۔ہم سب اس کے ساتھی ہیں۔یہ اسی کا گاؤں ہے اور گاؤں اس کے اندر بستا ہے۔یہ اس گاؤں کا ماضی، حال اور مستقبل ہے“۔

سینتا کی آواز لرزتی تھی اور ماجد کے آنسو تسبیح پھیرتے تھے۔جھریوں بھرا ہاتھ اٹھتا تھا اوراجلی سفید دادی سینتا، اولاد جیسی گڑیاؤں سے مخاطب ہوتی تھی۔”یہ جب بھی یورپ میں ہوتا ہے تو اس کی ہر بات گھوم پھر کے گاؤں پر آ جاتی ہے۔اسے اِس گاؤں سے عشق ہے ۔ وہ پنجابی نہیں، وہ اصل اور مکمل اپنے گاؤں کا عکس ہے اوراس کے گاؤں کی مٹی صرف اسی کے گاؤں تک نہیں ٹھہرتی ، سارے رنگوں کو سمیٹتی پھیلاتی نیچے نیچے لہر لہر ہوتی دنیا کے ہر گاؤں تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی لئے دنیا کو ایک ہی گاؤں کہا جاتا ہے“۔ بابا امجد ان لمحات میں بہت مغلوب تھا، خوش بھی تھا اور سینتا کی آمد پر حیرت زدہ بھی۔اس سے بولا نہیں جا رہا تھالیکن دھیرے دھیرے کہنے لگا” آپ سب نے میرے خواب کو پوراکردیا جو کوئی تیس سال پہلے صرف چھوٹی موٹی خواہشوں پر مشتمل تھا اور آج ایک واضح اور عملی روپ میں دل کی طرح دھڑکتا ہے۔مجھے افسوس ہے کہ گڑیاؤںمیں کچھ شکوک ابھرے لیکن دادی سینتانے بر وقت یہاں پہنچ کے معاملے کو سلجھا دیا ہے۔ہم سب کالاشی بھی ہیں، کشمیری بھی اور سندھی، بلوچی، بلتستانی بھی۔ہم ایک دوسرے سے خفا ہو سکتے ہیں، لیکن جدا نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم سب کی مٹی نیچے کسی گہرائی میں ایک ہو جاتی ہے اور میرے بچو، ہمیں یہ بات وہ مہربان خاتون بتا رہی ہے جسے آپ سب دادی سینتا کہتے ہیں، اور وہ خود ہزاروں میل دور سے اس لیے آئی ہے کہ وہ آپ سے بہت پیارکرتی ہے اور کسی گہرائی کے اندر سے آپ کے قدموں کی مٹی اس کے ملک کی مٹی سے بھی جا ملتی ہے۔پتہ نہیں، میں کتنا یہ گاؤں ہوں لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ یہ گاؤں اب ترقی کی پٹڑی پر چڑھ گیا ہے اور اب یہ واپس نہیں جائے گا“۔

ماجد کی آنکھوں میں آنسو تھے، کہنے لگا ”پتہ نہیں ہم کب تک رہیں، لیکن تم لوگ ایک رہنا، لڑنا نہ جھگڑنا،ورنہ تمہارے نیچے کا کانچ ٹوٹ جائے گا اور تم بکھر جاؤ گے....“ ابھی ماجد نے اتنا کہا تھا کہ اس کے پیچھے سے ایک ہاتھ ابھرا اور اس کے ہونٹوں پر جم گیا۔یہ جھریوں بھرا لیکن تواناہاتھ اور کسی کا نہ تھا، ماجد کی اماں، اس کی اور پورے گاؤں کی خالہ جان کا تھا.

”نہ بیٹا، میرے پتر، ایسا نہیں کہتے، ہمارا خوبصورت گاؤں ہمیشہ قائم رہے گا۔ ہمیشہ قائم رہے گا..... ہم نہیں تو ہمارے بچے، ان کے بچے اور ان کے بچوں کے بچے اسے قائم رکھیں گے ۔ یہ گاؤں اور اس سے جڑتے اور اس کو جوڑتے ہزاروں گاؤں ہمیشہ قائم رہیں گے اور پوری دنیا سے جڑے ہوں گے۔“

کچھ دیر تک منظر میں خاموشی چھائی رہی اور پھر شیشے کی میز پرگڑیاؤں کے قدم متحرک ہونے لگے، انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کے دائرہ بنایا اور کالاشی ، بلتستانی اور کوچی خانہ بدوش سُروں کے بیچ میں سے کبھی پنجابی گیت ابھرتا، کبھی کشمیری اور کبھی سندھی۔ہمیشگی اور سانجھ کا پھیلاؤ¶ تھا جو پورے ماحول پر چھایا تھا۔

 ندیم واحد صدیقی

29 اپریل 2023ء

Labels:

posted by S A J Shirazi @ 4:42 PM,

0 Comments:

Post a Comment

<< Home


Popular Posts

How I Work From Home and Make Extra Money?

Why Everyone Blogs and Why You Too Should

Business {Blogging} Proposal

Subscribe by Email

Blog Roll