گڑیوں نے گاؤں کو بدل دیا
Thursday, September 25, 2014
جرمنی کے دارالحکومت برلن کے جنوب مغرب میں واقع ایک خوبصورت اور تاریخی شہر پاٹس ڈیم کی ایک گلی شہر کے لوگوں کے لیے خاص طور پر دلچسپی کا باعث ہے، جہاں سےگزرنے والے راہگیر اکثر تین سو سال پرانے ایک گھر کے داخلی دروازے کے پاس دیوار پہ لگی پیتل کی اس تختی کو نہایت تجسس سے دیکھتے ہیں جس پر اس گھر کا نام لکھا ہے۔
گھر کا نام ہے ’پاکستان ہاؤس‘۔ عام حالات میں تو یہ دلچسپی محض متجسس نگاہوں تک ہی محدود رہتی ہے لیکن پچھلے سال فٹ بال کے عالمی کپ کے مقابلوں کے دوران گھر کے باہر پولیس کی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار دیکھ کر پاٹس ڈیم کے شہریوں کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔ گھر کے مکینوں کے خیال میں یہ ایک غیر ضروری اقدام تھا لیکن شہر میں آس پاس کے علاقوں سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کی موجودگی کی وجہ سے مقامی پولیس نے اس گھر کو خصوصی تحفظ مہیا کرنا ضروری سمجھا۔
اس گھر کو پاکستان ہاؤس کا نام کیوں دیا گیا ہے، اس کے پیچھے بے لوث محبت، انسانی خلوص اور لگن کی کہانی ہے۔ اس گھر کے مالک ڈاکٹر ناربرٹ پنچش اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر سینتا سلر نو سال قبل اس گھرمیں منتقل ہوئے تو انہوں نے اس کا نام پاکستان ہاؤس رکھا۔ پاکستان کے ساتھ ان کی محبت کا صرف یہی ایک ثبوت نہیں ہے بلکہ گھر کے اندر ہر کمرے میں پاکستان اور اس کی ثقافت سے گہرے تعلق کا ثبوت ملتا ہے۔گھر کے عقبی باغیچے کی دیوار پر پاکستان کا بہت بڑا پرچم آویزاں ہے جس کے ساتھ ہی پاکستان کا ایک قدیم کارچوبی دروازہ نصب ہے۔ گھر کے اندر بھی مختلف دیواروں پر پاکستانی پرچم، تصاویر اور الماریوں میں دستکاری کے نمونے سجے ہیں۔ لیکن سب سے اہم دالان کے کونے میں وہ چھوٹا سا کمرہ ہے جو پاکستان کے چاروں صوبوں کے قومی لباسوں میں ملبوس گڑیوں کے لیے مخصوص ہے۔ اور یہی گڑیاں پاکستان کے ساتھ سینتا سلر کے تعلق کی علامت ہیں۔
سینتا سلر پہلی بار 1990 میں اپنے ایک شاگرد امجد علی کی دعوت پہ آئی تھیں۔ امجد کا تعلق ٹھٹہ غلام کا سے ہے اور وہ اُس وقت برلن کے اس کالج میں گرافک ڈیزائن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جہاں سینتا وائس پرنسپل تھیں۔ اپنے اس سفر کے دوران سینتا گاؤں کی عورتوں کی حالت سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے تبھی طے کر لیا تھا کہ وہ ان عورتوں کے حالات بہتر کرنے کے لیے کچھ کریں گی
یہ گڑیاں پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے قریب ایک گاؤں ٹھٹہ غلام کا دھیروکا کی عورتیں بناتی ہیں جو دنیا بھر کے عالمی میلوں اور عجائب گھروں میں لوگوں کو پاکستانی ثقافت سے روشناس کراتی ہیں جن میں ہینوور ایکسپو 2000، دبئی کا عالمی میلہ، نیورمبرگ کا عالمی میلہ ، آئیس لینڈ کا گڑیوں کا عجائب گھر اور یونان کا ’بیناکی‘ عجائب گھر شامل ہیں۔
ان عورتوں کو خواب و خیال میں بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کی محنت اور ہنرمندی انہیں کامیابی کی ان منزلوں تک پہنچا دے گی۔
لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی اور سینتا سلر کی کامیابی کا ثبوت وہ شہرت ہے جو جنوبی امریکہ کے ملک کولمبیا سے لیکر افریقہ میں کیمرون تک پہنچ چکی ہے اور جہاں کی عورتوں نےسینتا سے درخواست کی کہ وہ ان کے گاؤں میں بھی دستکاری کاایک ایسا ہی پراجیکٹ شروع کریں۔ چنا نچہ اپنی مدد آپ کے اصول پہ مبنی پاکستانی عورتوں کی کامیابی کی یہ کہانی اب کولمبیا اور کیمرون میں بھی دہرائی جا رہی ہے۔
یوں تو ہاتھ سے گڑیاں بنانے کی روایت پاکستان اور برصغیر میں بہت پرانی ہے لیکن سینتا سلرکی شاگردی میں ٹھٹہ غلام کا کی عورتوں نے اس ہنر کو اپنے ہاتھ کی صفائی اورنفاست سے فن کا درجہ دے دیا ہے۔ لیکن بقول سینتا سلر ان گڑیوں کی اصل عظمت یہ ہے کہ یہ گڑیاں اپنے بنانے والوں کی خود انحصاری اور خود اعتمادی کی علامت بن گئی ہیں۔
کشمیری، پنجابی، سندھی، بلوچی اور قلاشی لباس اور زیورات میں سجی سجائی یہ گڑیاں پاکستان میں تین چار ہزار روپے اور مغربی ممالک میں ایک سو ڈالر تک بکتی ہیں اور ٹھٹھہ غلام کا کی عورتوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ سینتا سلر کا کہنا ہے : ’اگرچہ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد عورتوں کو خود کفیل بنانا تھا لیکن شروع ہی سےاجتماعی ترقی بھی منصوبے کا اہم پہلو تھا اور ہم نےاپنے طریقہ کار میں پورے گاؤں کا معیار زندگی بلند کرنے کی کوشش کی۔ عورتوں کے لیے روزگار مہیا کرنے، انکے رہن سہن اورگھریلو ماحول کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و فنی تربیت کو بہتر کرنا بھی اس پراجیکٹ کے بنیادی فلسفے کا حصہ ہے‘۔
یوں تو ہاتھ سے گڑیاں بنانے کی روایت پاکستان اور بر صغیر میں بہت پرانی ہے لیکن سینتا سلرکی شاگردی میں ٹھٹہ غلام کا کی عورتوں نے اس ہنر کو اپنے ہاتھ کی صفائی اور نفاست سے فن کا درجہ دے دیا ہے
سینتا کہتی ہیں کہ اگر لوگوں کو گاؤں میں ہی روزگار مہیا ہو اور ان کا معیار زندگی بہتر ہو جائے تو گاؤں چھوڑ کر شہروں کو نقل مکانی کا رجحان بھی کم ہوگا۔
لاہور سے 170 کلو میٹر دور اوکاڑہ کے قریب اس چھوٹے سے گاؤں میں سینتا سلر پہلی بار 1990 میں اپنے ایک شاگرد امجد علی کی دعوت پر گئی تھیں۔ امجد کا تعلق ٹھٹہ غلام کا سے ہے اور وہ اُس وقت برلن کے اس کالج میں گرافک ڈیزائن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جہاں سینتا وائس پرنسپل تھیں۔ اپنے اس سفر کے دوران سینتا گاؤں کی عورتوں کی حالت سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے تبھی طے کر لیا تھا کہ وہ ان عورتوں کے حالات بہتر کرنے کے لیے کچھ کریں گی۔
چنا نچہ1993 میں کالج سے ریٹائرہونے پر بغیر کسی بیرونی مالی امداد کے وہ کپڑے کاٹنے کی ایک قینچی اور سوئی دھاگے کی چھوٹی سی پوٹلی لیے ٹھٹہ غلام کا پہنچ گئیں۔ گاؤں کےلو گوں نے انہیں ایک چھوٹا سا کچا کوٹھا رہنے کے لیے دیااور انہوں نے آہستہ آہستہ گاؤں کی عورتوں کو سلائی کڑھائی اور گڑیاں بنانے کی جانب راغب کیا ۔ ابتداء میں نہ تو عورتوں کو اس کام کی افادیت کا اندازہ تھا اور نہ ہی گھر کے مرد ایک مغربی عورت کی صحبت کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
گھر کا نام ہے ’پاکستان ہاؤس‘۔ عام حالات میں تو یہ دلچسپی محض متجسس نگاہوں تک ہی محدود رہتی ہے لیکن پچھلے سال فٹ بال کے عالمی کپ کے مقابلوں کے دوران گھر کے باہر پولیس کی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار دیکھ کر پاٹس ڈیم کے شہریوں کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔ گھر کے مکینوں کے خیال میں یہ ایک غیر ضروری اقدام تھا لیکن شہر میں آس پاس کے علاقوں سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کی موجودگی کی وجہ سے مقامی پولیس نے اس گھر کو خصوصی تحفظ مہیا کرنا ضروری سمجھا۔
اس گھر کو پاکستان ہاؤس کا نام کیوں دیا گیا ہے، اس کے پیچھے بے لوث محبت، انسانی خلوص اور لگن کی کہانی ہے۔ اس گھر کے مالک ڈاکٹر ناربرٹ پنچش اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر سینتا سلر نو سال قبل اس گھرمیں منتقل ہوئے تو انہوں نے اس کا نام پاکستان ہاؤس رکھا۔ پاکستان کے ساتھ ان کی محبت کا صرف یہی ایک ثبوت نہیں ہے بلکہ گھر کے اندر ہر کمرے میں پاکستان اور اس کی ثقافت سے گہرے تعلق کا ثبوت ملتا ہے۔گھر کے عقبی باغیچے کی دیوار پر پاکستان کا بہت بڑا پرچم آویزاں ہے جس کے ساتھ ہی پاکستان کا ایک قدیم کارچوبی دروازہ نصب ہے۔ گھر کے اندر بھی مختلف دیواروں پر پاکستانی پرچم، تصاویر اور الماریوں میں دستکاری کے نمونے سجے ہیں۔ لیکن سب سے اہم دالان کے کونے میں وہ چھوٹا سا کمرہ ہے جو پاکستان کے چاروں صوبوں کے قومی لباسوں میں ملبوس گڑیوں کے لیے مخصوص ہے۔ اور یہی گڑیاں پاکستان کے ساتھ سینتا سلر کے تعلق کی علامت ہیں۔
سینتا سلر پہلی بار 1990 میں اپنے ایک شاگرد امجد علی کی دعوت پہ آئی تھیں۔ امجد کا تعلق ٹھٹہ غلام کا سے ہے اور وہ اُس وقت برلن کے اس کالج میں گرافک ڈیزائن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جہاں سینتا وائس پرنسپل تھیں۔ اپنے اس سفر کے دوران سینتا گاؤں کی عورتوں کی حالت سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے تبھی طے کر لیا تھا کہ وہ ان عورتوں کے حالات بہتر کرنے کے لیے کچھ کریں گی
یہ گڑیاں پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے قریب ایک گاؤں ٹھٹہ غلام کا دھیروکا کی عورتیں بناتی ہیں جو دنیا بھر کے عالمی میلوں اور عجائب گھروں میں لوگوں کو پاکستانی ثقافت سے روشناس کراتی ہیں جن میں ہینوور ایکسپو 2000، دبئی کا عالمی میلہ، نیورمبرگ کا عالمی میلہ ، آئیس لینڈ کا گڑیوں کا عجائب گھر اور یونان کا ’بیناکی‘ عجائب گھر شامل ہیں۔
ان عورتوں کو خواب و خیال میں بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کی محنت اور ہنرمندی انہیں کامیابی کی ان منزلوں تک پہنچا دے گی۔
لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی اور سینتا سلر کی کامیابی کا ثبوت وہ شہرت ہے جو جنوبی امریکہ کے ملک کولمبیا سے لیکر افریقہ میں کیمرون تک پہنچ چکی ہے اور جہاں کی عورتوں نےسینتا سے درخواست کی کہ وہ ان کے گاؤں میں بھی دستکاری کاایک ایسا ہی پراجیکٹ شروع کریں۔ چنا نچہ اپنی مدد آپ کے اصول پہ مبنی پاکستانی عورتوں کی کامیابی کی یہ کہانی اب کولمبیا اور کیمرون میں بھی دہرائی جا رہی ہے۔
یوں تو ہاتھ سے گڑیاں بنانے کی روایت پاکستان اور برصغیر میں بہت پرانی ہے لیکن سینتا سلرکی شاگردی میں ٹھٹہ غلام کا کی عورتوں نے اس ہنر کو اپنے ہاتھ کی صفائی اورنفاست سے فن کا درجہ دے دیا ہے۔ لیکن بقول سینتا سلر ان گڑیوں کی اصل عظمت یہ ہے کہ یہ گڑیاں اپنے بنانے والوں کی خود انحصاری اور خود اعتمادی کی علامت بن گئی ہیں۔
کشمیری، پنجابی، سندھی، بلوچی اور قلاشی لباس اور زیورات میں سجی سجائی یہ گڑیاں پاکستان میں تین چار ہزار روپے اور مغربی ممالک میں ایک سو ڈالر تک بکتی ہیں اور ٹھٹھہ غلام کا کی عورتوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ سینتا سلر کا کہنا ہے : ’اگرچہ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد عورتوں کو خود کفیل بنانا تھا لیکن شروع ہی سےاجتماعی ترقی بھی منصوبے کا اہم پہلو تھا اور ہم نےاپنے طریقہ کار میں پورے گاؤں کا معیار زندگی بلند کرنے کی کوشش کی۔ عورتوں کے لیے روزگار مہیا کرنے، انکے رہن سہن اورگھریلو ماحول کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و فنی تربیت کو بہتر کرنا بھی اس پراجیکٹ کے بنیادی فلسفے کا حصہ ہے‘۔
یوں تو ہاتھ سے گڑیاں بنانے کی روایت پاکستان اور بر صغیر میں بہت پرانی ہے لیکن سینتا سلرکی شاگردی میں ٹھٹہ غلام کا کی عورتوں نے اس ہنر کو اپنے ہاتھ کی صفائی اور نفاست سے فن کا درجہ دے دیا ہے
سینتا کہتی ہیں کہ اگر لوگوں کو گاؤں میں ہی روزگار مہیا ہو اور ان کا معیار زندگی بہتر ہو جائے تو گاؤں چھوڑ کر شہروں کو نقل مکانی کا رجحان بھی کم ہوگا۔
لاہور سے 170 کلو میٹر دور اوکاڑہ کے قریب اس چھوٹے سے گاؤں میں سینتا سلر پہلی بار 1990 میں اپنے ایک شاگرد امجد علی کی دعوت پر گئی تھیں۔ امجد کا تعلق ٹھٹہ غلام کا سے ہے اور وہ اُس وقت برلن کے اس کالج میں گرافک ڈیزائن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جہاں سینتا وائس پرنسپل تھیں۔ اپنے اس سفر کے دوران سینتا گاؤں کی عورتوں کی حالت سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے تبھی طے کر لیا تھا کہ وہ ان عورتوں کے حالات بہتر کرنے کے لیے کچھ کریں گی۔
چنا نچہ1993 میں کالج سے ریٹائرہونے پر بغیر کسی بیرونی مالی امداد کے وہ کپڑے کاٹنے کی ایک قینچی اور سوئی دھاگے کی چھوٹی سی پوٹلی لیے ٹھٹہ غلام کا پہنچ گئیں۔ گاؤں کےلو گوں نے انہیں ایک چھوٹا سا کچا کوٹھا رہنے کے لیے دیااور انہوں نے آہستہ آہستہ گاؤں کی عورتوں کو سلائی کڑھائی اور گڑیاں بنانے کی جانب راغب کیا ۔ ابتداء میں نہ تو عورتوں کو اس کام کی افادیت کا اندازہ تھا اور نہ ہی گھر کے مرد ایک مغربی عورت کی صحبت کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
لیکن اصل مرحلہ تھا ان کے لیے موزوں مارکیٹ تلاش کرنا جہاں لوگ اتنی محنت سے بنی گڑیوں کی صحیح قیمت دینے کے لیے تیار ہوں۔ چنانچہ یہ کام سینتا نے اپنے ذمہ لیا اور غیر ملکی سفارت خانوں کے مینا بازاروں اور بڑے بڑے ہوٹلوں کےمقامی دستکاری شو کیسوں میں آہستہ آہستہ ان گڑیوں کی بکری شروع ہوئی۔ سینتا کا کہنا ہے کہ سفارتکاروں کے ذریعے پاکستان کے علاقائی لباس میں ملبوس یہ گڑیاں دنیا کے چالیس ممالک کو جا چکی ہیں اور ٹھٹہ کی 120 عورتوں کے لیے روزگار مہیا کر رہی ہیں۔
وہ کام جو انجمن فلاح عامہ کہ نام سے 14 برس پہلے ایک کچے کوٹھے میں شروع ہوا تھا اس کے لیے اب سادہ لیکن آرام دہ آرٹ سینٹر تعمیر ہو چکا ہے۔ جوں جوں عورتوں کے روزگار کا سلسہ بہتر ہوا، انکی خود اعتمادی بڑھی، ان کے رویےمیں تبدیلی آئی اور اس کا اثر نہ صرف انکے اپنے لباس اور رہن سہن میں نظر آنے لگا بلکہ گاؤں کے ماحول میں بھی ایک نمایاں تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔
عورتیں اپنے بچوں اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لینے لگیں، آرٹ سینٹر نے گاؤں کے پرائمری سکول کو فرنیچر مہیا کیا، گاؤں میں ایک ہیلتھ سینٹر قائم ہو چکا ہے جو سینتا کی وساطت سےٹھٹہ آنے والی ایک جرمن ڈاکٹرنے شروع کیا۔
1996 میں عورتوں کے آرٹ سینٹر میں ہی مردوں کے لیے بھی ٹین سے کھلونے بنانے کا پراجیکٹ شروع ہوا جہان گاؤں کے مرد پاکستانی رکشوں، بسوں اور لاریوں کے رنگ برنگے ماڈل بناتے ہیں۔
گاؤں کی خوشحالی اور عورتوں کی ہنرمندی کی ایک اور مثال مٹی کے بنے گھر ہیں جن کی دیواروں اور برآمدوں میں اب اسلامی طرز تعمیر کی جھلک نظر آنے لگی ہے۔گھروں کی دیواروں میں محرابیں اور اناج رکھنے کے ( بھڑولوں ) پرگنبد اور چھوٹےچھوٹے مینار بن رہے ہیں اور دیواریں رنگ برنگے نقش و نگار سے سجی ہوئی ہیں۔گاؤں میں ہر سال فن تعمیر کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں ججوں کا پینل بہترین گھر کا انتخاب کرتا ہے ۔
1996 میں عورتوں کے آرٹ سینٹر میں ہی مردوں کے لیے بھی ٹین سے کھلونے بنانے کا پراجیکٹ شروع ہوا جہان گاؤں کے مرد پاکستانی رکشوں، بسوں اور لاریوں کے رنگ برنگے ماڈل بناتے ہیں
سینتا نےٹھٹہ کے لوگوں کو ایک اور خوبصورت روایت سے متعارف کرایا ہے جو پاکستان کے ہر گاؤں میں دوہرائی جانی چاہئے۔ اس میں ہر نئے شادی شدہ جوڑے کوایک پھل کا درخت اور ہر بچے کی پیدائش پر پھولوں کاایک پودہ تحفے میں دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں گاؤں کا ہر گھر پھلدار درختوں اور پھولوں کی خوشبو سے مہک گیا ہے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب ٹھٹہ غلام کا دھیرو کا ’ٹھٹہ بوگن ولا‘ کہلائے گا۔غرض یہ کہ ان تبدیلیوں نے گاؤں کے لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔
بڑے مالی اداروں یا سرکاری مدد کے بغیر پنجاب کے ایک گاؤں میں اس خاموش انقلاب کی شہرت اب عالمی سطح پہ ماہرین کی دلچسپی کا باعث ہے اور غیر ملکی مہمانوں میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ان میں صحافی، دانشور، سائنسدان، سوشل ورکر اور سوشیالوجی کے طالبعلم سبھی شامل ہیں۔
حال ہی میں سینتا سلر کےکام کے بارے میں سن کرایک اور جرمن رضاکار مانیکاکپلرگاؤں کے لیے بجلی کی بھٹی کا تحفہ لیکر آئیں اور گاؤں کی عورتوں کو چینی اور مٹی کے برتن بنانے سکھاگئیں۔
ان مہمانوں کی رہائش کے لیے گاؤں میں کچھ گھرانوں نے گھر کا ایک کمرہ مہمان خانے کے طور پر مخصوص کر دیا ہے جہاں آنےوالوں کو مناسب داموں پہ گھریلو ماحول میں صاف ستھرا بستر اور تازہ کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔ محنت کا یہ صدقۂ جاریہ جو اس غیر معمولی جرمن خاتون نے شروع کیا اب اس گاؤں کی روایات میں شامل ہو چکا ہے۔
(via BBC)
posted by S A J Shirazi @ 12:26 PM,
1 Comments:
- At September 27, 2014 at 4:39 PM, Unknown said...
-
Inspirational.
Post a Comment