Mrs.
Renate Perner is very well familiar with the village project. Coming to the Dolls' village fourth time, she has brought along another colleague Mr. Lutz Fluegge. A part of Renate's work dealt with teaching art and handicraft in the girls school in the village. The other part dealt with the development of handicraft products in the Women’s Centre of the NGO. (Image: Renate Perner with another volunteer)
Labels: Volunteers
posted by S A J Shirazi @ 8:28 AM,
,
Labels: Culture, Pattern, Sindh
posted by S A J Shirazi @ 10:34 AM,
,
Labels: Design
posted by S A J Shirazi @ 11:13 AM,
,
Labels: Celebrations, Culture, Designs, Eid, Hina, Mehndi
posted by S A J Shirazi @ 10:06 PM,
,
Labels: Eid Greetings
posted by S A J Shirazi @ 1:37 PM,
,
People say money doesn't buy happiness. Except, according to a new study from Princeton University's Woodrow Wilson School, it sort of does — up to about $75,000 a year. The lower a person's annual income falls below that benchmark, the unhappier he or she feels. But no matter how much more than $75,000 people make, they don't report any greater degree of happiness
Read more at
TimeLabels: Happiness, Research
posted by S A J Shirazi @ 10:21 PM,
,
جرمنی کے دارالحکومت برلن کے جنوب مغرب میں واقع ایک خوبصورت اور تاریخی شہر پاٹس ڈیم کی ایک گلی شہر کے لوگوں کے لیے خاص طور پر دلچسپی کا باعث ہے، جہاں سےگزرنے والے راہگیر اکثر تین سو سال پرانے ایک گھر کے داخلی دروازے کے پاس دیوار پہ لگی پیتل کی اس تختی کو نہایت تجسس سے دیکھتے ہیں جس پر اس گھر کا نام لکھا ہے۔
گھر کا نام ہے ’پاکستان ہاؤس‘۔ عام حالات میں تو یہ دلچسپی محض متجسس نگاہوں تک ہی محدود رہتی ہے لیکن پچھلے سال فٹ بال کے عالمی کپ کے مقابلوں کے دوران گھر کے باہر پولیس کی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار دیکھ کر پاٹس ڈیم کے شہریوں کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔ گھر کے مکینوں کے خیال میں یہ ایک غیر ضروری اقدام تھا لیکن شہر میں آس پاس کے علاقوں سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کی موجودگی کی وجہ سے مقامی پولیس نے اس گھر کو خصوصی تحفظ مہیا کرنا ضروری سمجھا۔
اس گھر کو پاکستان ہاؤس کا نام کیوں دیا گیا ہے، اس کے پیچھے بے لوث محبت، انسانی خلوص اور لگن کی کہانی ہے۔ اس گھر کے مالک ڈاکٹر ناربرٹ پنچش اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر سینتا سلر نو سال قبل اس گھرمیں منتقل ہوئے تو انہوں نے اس کا نام پاکستان ہاؤس رکھا۔ پاکستان کے ساتھ ان کی محبت کا صرف یہی ایک ثبوت نہیں ہے بلکہ گھر کے اندر ہر کمرے میں پاکستان اور اس کی ثقافت سے گہرے تعلق کا ثبوت ملتا ہے۔گھر کے عقبی باغیچے کی دیوار پر پاکستان کا بہت بڑا پرچم آویزاں ہے جس کے ساتھ ہی پاکستان کا ایک قدیم کارچوبی دروازہ نصب ہے۔ گھر کے اندر بھی مختلف دیواروں پر پاکستانی پرچم، تصاویر اور الماریوں میں دستکاری کے نمونے سجے ہیں۔ لیکن سب سے اہم دالان کے کونے میں وہ چھوٹا سا کمرہ ہے جو پاکستان کے چاروں صوبوں کے قومی لباسوں میں ملبوس گڑیوں کے لیے مخصوص ہے۔ اور یہی گڑیاں پاکستان کے ساتھ سینتا سلر کے تعلق کی علامت ہیں۔
سینتا سلر پہلی بار 1990 میں اپنے ایک شاگرد امجد علی کی دعوت پہ آئی تھیں۔ امجد کا تعلق ٹھٹہ غلام کا سے ہے اور وہ اُس وقت برلن کے اس کالج میں گرافک ڈیزائن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جہاں سینتا وائس پرنسپل تھیں۔ اپنے اس سفر کے دوران سینتا گاؤں کی عورتوں کی حالت سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے تبھی طے کر لیا تھا کہ وہ ان عورتوں کے حالات بہتر کرنے کے لیے کچھ کریں گی
یہ گڑیاں پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے قریب ایک گاؤں ٹھٹہ غلام کا دھیروکا کی عورتیں بناتی ہیں جو دنیا بھر کے عالمی میلوں اور عجائب گھروں میں لوگوں کو پاکستانی ثقافت سے روشناس کراتی ہیں جن میں ہینوور ایکسپو 2000، دبئی کا عالمی میلہ، نیورمبرگ کا عالمی میلہ ، آئیس لینڈ کا گڑیوں کا عجائب گھر اور یونان کا ’بیناکی‘ عجائب گھر شامل ہیں۔
ان عورتوں کو خواب و خیال میں بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کی محنت اور ہنرمندی انہیں کامیابی کی ان منزلوں تک پہنچا دے گی۔
لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی اور سینتا سلر کی کامیابی کا ثبوت وہ شہرت ہے جو جنوبی امریکہ کے ملک کولمبیا سے لیکر افریقہ میں کیمرون تک پہنچ چکی ہے اور جہاں کی عورتوں نےسینتا سے درخواست کی کہ وہ ان کے گاؤں میں بھی دستکاری کاایک ایسا ہی پراجیکٹ شروع کریں۔ چنا نچہ اپنی مدد آپ کے اصول پہ مبنی پاکستانی عورتوں کی کامیابی کی یہ کہانی اب کولمبیا اور کیمرون میں بھی دہرائی جا رہی ہے۔
یوں تو ہاتھ سے گڑیاں بنانے کی روایت پاکستان اور برصغیر میں بہت پرانی ہے لیکن سینتا سلرکی شاگردی میں ٹھٹہ غلام کا کی عورتوں نے اس ہنر کو اپنے ہاتھ کی صفائی اورنفاست سے فن کا درجہ دے دیا ہے۔ لیکن بقول سینتا سلر ان گڑیوں کی اصل عظمت یہ ہے کہ یہ گڑیاں اپنے بنانے والوں کی خود انحصاری اور خود اعتمادی کی علامت بن گئی ہیں۔
کشمیری، پنجابی، سندھی، بلوچی اور قلاشی لباس اور زیورات میں سجی سجائی یہ گڑیاں پاکستان میں تین چار ہزار روپے اور مغربی ممالک میں ایک سو ڈالر تک بکتی ہیں اور ٹھٹھہ غلام کا کی عورتوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ سینتا سلر کا کہنا ہے : ’اگرچہ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد عورتوں کو خود کفیل بنانا تھا لیکن شروع ہی سےاجتماعی ترقی بھی منصوبے کا اہم پہلو تھا اور ہم نےاپنے طریقہ کار میں پورے گاؤں کا معیار زندگی بلند کرنے کی کوشش کی۔ عورتوں کے لیے روزگار مہیا کرنے، انکے رہن سہن اورگھریلو ماحول کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و فنی تربیت کو بہتر کرنا بھی اس پراجیکٹ کے بنیادی فلسفے کا حصہ ہے‘۔
یوں تو ہاتھ سے گڑیاں بنانے کی روایت پاکستان اور بر صغیر میں بہت پرانی ہے لیکن سینتا سلرکی شاگردی میں ٹھٹہ غلام کا کی عورتوں نے اس ہنر کو اپنے ہاتھ کی صفائی اور نفاست سے فن کا درجہ دے دیا ہے
سینتا کہتی ہیں کہ اگر لوگوں کو گاؤں میں ہی روزگار مہیا ہو اور ان کا معیار زندگی بہتر ہو جائے تو گاؤں چھوڑ کر شہروں کو نقل مکانی کا رجحان بھی کم ہوگا۔
لاہور سے 170 کلو میٹر دور اوکاڑہ کے قریب اس چھوٹے سے گاؤں میں سینتا سلر پہلی بار 1990 میں اپنے ایک شاگرد امجد علی کی دعوت پر گئی تھیں۔ امجد کا تعلق ٹھٹہ غلام کا سے ہے اور وہ اُس وقت برلن کے اس کالج میں گرافک ڈیزائن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جہاں سینتا وائس پرنسپل تھیں۔ اپنے اس سفر کے دوران سینتا گاؤں کی عورتوں کی حالت سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے تبھی طے کر لیا تھا کہ وہ ان عورتوں کے حالات بہتر کرنے کے لیے کچھ کریں گی۔
چنا نچہ1993 میں کالج سے ریٹائرہونے پر بغیر کسی بیرونی مالی امداد کے وہ کپڑے کاٹنے کی ایک قینچی اور سوئی دھاگے کی چھوٹی سی پوٹلی لیے ٹھٹہ غلام کا پہنچ گئیں۔ گاؤں کےلو گوں نے انہیں ایک چھوٹا سا کچا کوٹھا رہنے کے لیے دیااور انہوں نے آہستہ آہستہ گاؤں کی عورتوں کو سلائی کڑھائی اور گڑیاں بنانے کی جانب راغب کیا ۔ ابتداء میں نہ تو عورتوں کو اس کام کی افادیت کا اندازہ تھا اور نہ ہی گھر کے مرد ایک مغربی عورت کی صحبت کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
لیکن اصل مرحلہ تھا ان کے لیے موزوں مارکیٹ تلاش کرنا جہاں لوگ اتنی محنت سے بنی گڑیوں کی صحیح قیمت دینے کے لیے تیار ہوں۔ چنانچہ یہ کام سینتا نے اپنے ذمہ لیا اور غیر ملکی سفارت خانوں کے مینا بازاروں اور بڑے بڑے ہوٹلوں کےمقامی دستکاری شو کیسوں میں آہستہ آہستہ ان گڑیوں کی بکری شروع ہوئی۔ سینتا کا کہنا ہے کہ سفارتکاروں کے ذریعے پاکستان کے علاقائی لباس میں ملبوس یہ گڑیاں دنیا کے چالیس ممالک کو جا چکی ہیں اور ٹھٹہ کی 120 عورتوں کے لیے روزگار مہیا کر رہی ہیں۔
وہ کام جو انجمن فلاح عامہ کہ نام سے 14 برس پہلے ایک کچے کوٹھے میں شروع ہوا تھا اس کے لیے اب سادہ لیکن آرام دہ آرٹ سینٹر تعمیر ہو چکا ہے۔ جوں جوں عورتوں کے روزگار کا سلسہ بہتر ہوا، انکی خود اعتمادی بڑھی، ان کے رویےمیں تبدیلی آئی اور اس کا اثر نہ صرف انکے اپنے لباس اور رہن سہن میں نظر آنے لگا بلکہ گاؤں کے ماحول میں بھی ایک نمایاں تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔
عورتیں اپنے بچوں اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لینے لگیں، آرٹ سینٹر نے گاؤں کے پرائمری سکول کو فرنیچر مہیا کیا، گاؤں میں ایک ہیلتھ سینٹر قائم ہو چکا ہے جو سینتا کی وساطت سےٹھٹہ آنے والی ایک جرمن ڈاکٹرنے شروع کیا۔
1996 میں عورتوں کے آرٹ سینٹر میں ہی مردوں کے لیے بھی ٹین سے کھلونے بنانے کا پراجیکٹ شروع ہوا جہان گاؤں کے مرد پاکستانی رکشوں، بسوں اور لاریوں کے رنگ برنگے ماڈل بناتے ہیں۔
گاؤں کی خوشحالی اور عورتوں کی ہنرمندی کی ایک اور مثال مٹی کے بنے گھر ہیں جن کی دیواروں اور برآمدوں میں اب اسلامی طرز تعمیر کی جھلک نظر آنے لگی ہے۔گھروں کی دیواروں میں محرابیں اور اناج رکھنے کے ( بھڑولوں ) پرگنبد اور چھوٹےچھوٹے مینار بن رہے ہیں اور دیواریں رنگ برنگے نقش و نگار سے سجی ہوئی ہیں۔گاؤں میں ہر سال فن تعمیر کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں ججوں کا پینل بہترین گھر کا انتخاب کرتا ہے ۔
1996 میں عورتوں کے آرٹ سینٹر میں ہی مردوں کے لیے بھی ٹین سے کھلونے بنانے کا پراجیکٹ شروع ہوا جہان گاؤں کے مرد پاکستانی رکشوں، بسوں اور لاریوں کے رنگ برنگے ماڈل بناتے ہیں
سینتا نےٹھٹہ کے لوگوں کو ایک اور خوبصورت روایت سے متعارف کرایا ہے جو پاکستان کے ہر گاؤں میں دوہرائی جانی چاہئے۔ اس میں ہر نئے شادی شدہ جوڑے کوایک پھل کا درخت اور ہر بچے کی پیدائش پر پھولوں کاایک پودہ تحفے میں دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں گاؤں کا ہر گھر پھلدار درختوں اور پھولوں کی خوشبو سے مہک گیا ہے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب ٹھٹہ غلام کا دھیرو کا ’ٹھٹہ بوگن ولا‘ کہلائے گا۔غرض یہ کہ ان تبدیلیوں نے گاؤں کے لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔
بڑے مالی اداروں یا سرکاری مدد کے بغیر پنجاب کے ایک گاؤں میں اس خاموش انقلاب کی شہرت اب عالمی سطح پہ ماہرین کی دلچسپی کا باعث ہے اور غیر ملکی مہمانوں میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ان میں صحافی، دانشور، سائنسدان، سوشل ورکر اور سوشیالوجی کے طالبعلم سبھی شامل ہیں۔
حال ہی میں سینتا سلر کےکام کے بارے میں سن کرایک اور جرمن رضاکار مانیکاکپلرگاؤں کے لیے بجلی کی بھٹی کا تحفہ لیکر آئیں اور گاؤں کی عورتوں کو چینی اور مٹی کے برتن بنانے سکھاگئیں۔
ان مہمانوں کی رہائش کے لیے گاؤں میں کچھ گھرانوں نے گھر کا ایک کمرہ مہمان خانے کے طور پر مخصوص کر دیا ہے جہاں آنےوالوں کو مناسب داموں پہ گھریلو ماحول میں صاف ستھرا بستر اور تازہ کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔ محنت کا یہ صدقۂ جاریہ جو اس غیر معمولی جرمن خاتون نے شروع کیا اب اس گاؤں کی روایات میں شامل ہو چکا ہے۔
Labels: Dr. Senta Siller, Prof. Dr. Norbert Pintsch, Thatta Kedona
posted by S A J Shirazi @ 5:00 PM,
,
The problem has already been described elsewhere, however the differences in various forms of organization are again mentioned specially in context to the anthropological and ethnological aspects.
The constructed organizations have rationalized their inter-human problems. Hostilities and mobbing do exist but are principally possible to be reduced by way of changes in work place, even if it does sometime entail social injustices like loss of income and ultimately slipping into poverty is only the tip of the iceberg. Members of the city culture today do not live under the pressures, which under the slogan “city life makes you free” lead to immense growth of the cities and a freedom of the person in the sense of independence from social responsibilities.
The NGO, if it really represents an alternative to the constructed organizational entities, is flexible and it can react faster to the changes. This is the theory.
If the NGO works in the rural environment integrated into the traditional culture, the city persons come across additional intangible problems, which cannot be solved by anthropologists and ethnologists, unless they work together with the village NGO and do their research covertly.
Even in relatively small village units of about 1000 residents exist in the course of the day chaos, the violence, archaic circumstances, which can disturb the sensitive work of the NGO.
The behavioral structures here are not at all so different from the construed organizations but the effects are more difficult and complex. Who marries whom, which field belongs to whom, who has more land, who enjoys what type of respect, who behaves as a member of village society, who is physically stronger, who is psychologically smarter, which does not mean that it leads to longer life because violence can easily be applied from many directions.
Who shall work in the NGO, will it change their position in the village community, should this be possible ? Who takes over the leadership function, should he be allowed to exercise influence over the family? Can he exercise influence and to what extent?
Although there may be lot of general knowledge about the traditional culture but the reality can only be experienced by being there in person.
The efforts of the NGOs should not be directed towards financing the whole life but only income to the extent of earning the daily bread. Nevertheless, this also means that the production methods, which maintain the cultural identity, are made difficult by the above mentioned factors. Pressure cannot be exerted due to the missing dependence of the subjects and the village customs must also be taken into consideration.
The task is like walking on a cable rope even for special experts, whose performance can hardly be judged in tangible terms.
Labels: NGOs
posted by S A J Shirazi @ 7:30 AM,
,
Hijab Day
Sunday, September 5, 2010
Wear hijab and live independent...
Like other parts of the globe, World Hijab Day was observed across the country on Saturday to raise awareness about the rights of Muslim women, including wearing hijab. World Hijab Day is observed on September 4 to mark the gruesome murder of hijab-clad Egyptian woman Marwa Al-Sherbini by a German racist in courtroom that sent shock-waves among Muslims. Jama’at-e-Islami Women Wing organised rallies and demonstrations in major cities including Lahore to mark the day.
Related:
Yvonne Ridley Tells Her Story - Hijab in the WestLabels: Islam, Religion, Women
posted by S A J Shirazi @ 10:39 PM,
,
Some more impressions from Globians Film Festival 2005 (Potsdam, Germany) are
here. . .
Labels: Thatta Kedona
posted by S A J Shirazi @ 6:39 PM,
,
Куклы были всегда. Доказательство тому – однозначно идентифицированные в качестве таковых предметы, найденные при раскопках в Южной Америке, Японии, Италии, Греции и в других местах по всему миру. Сделанные из всевозможных материалов – дерева, воска, глины, ткани, – они использовались не только как игрушки, но часто и как символы и культовые предметы, миниатюрные изображения человека в ритуалах жертвоприношения. Еще и по сей день у различных народов они выступают как фетиш, что привело к возникновению культовых фигур или разработанных на их основе игрушек. Куклы – это не только игрушки, имеющие воспитательную ценность, но и реальные документы прошлого и настоящего и, следовательно, важный источник, из которого можно черпать знания об играх, образе жизни, быте и хозяйственной деятельности того или иного народа. Таким образом, куклы являются важным проводником культуры!
Д-р Зента Зиллер основала в ряде стран – Пакистане, Камеруне, Колумбии и др. – различные социальные проекты. Суть их заключается в следующем: занятие художественными ремеслами шаг за шагом прокладывает путь в деле развития сельских областей, обучает их жителей приемам самопомощи, сдерживает отток людей из деревни за счет мероприятий, приносящих им дополнительный доход. Производство кукол здесь – это кропотливая ручная работа; их наряжают в оригинальные костюмы с разнообразными аксессуарами. Вследствие этого забытые виды тканей и детали одежды вновь оживают и занимают важное место в быту.
Куклы из Пакистана
Основанный д-ром Зиллер в 1993 г. женский проект в пакистанской провинции Пенджаб – а на сегодняшний день он разросся и включает в себя также и центр для мужчин – способствовал тому, что к настоящему времени уже 120 женщин имеют доход. Занятость этих женщин в проекте, базирующаяся на их любви к традиции, не препятствует их работе по дому и в поле, а также проведению различного рода праздников, которые определяют традиционную культуру в сельской местности. Деревня Татта Гхуламка Дхирока насчитывает около 1200 жителей. В 1991 г. сельская община основала кооператив «Аньюман-э-Фалах-э-Аама», который сотрудничает с DGFK e.V. (Немецкое общество содействия Kultur e.V.). Сам Аньюман участвует в шести других проектах в стране.
Куклы из Камеруна
Начиная с 1998 г. были основаны три кооператива («Акавтинуигах», «Акаанканг», HandiCraft CAT) в Баменде, столице северо-западной камерунской провинции, которая граничит с Нигерией. Эти кооперативы также сотрудничают с DGFK. Баменда насчитывает примерно 60 000 жителей, которые составляют население семи холмов и говорят на восьми различных языках. Помимо мужчин из кооператива CAT, художественно-ремесленную продукцию изготавливают более 100 женщин.
Куклы из Колумбии
В 1999 г. был основан кооператив «Танто Мехор» в Сабойе, который к настоящему времени сотрудничает с тремя инициативами. Сабойя – это населенный пункт примерно с 6000 жителей, расположенный вблизи от Чикинкиры, столицы департамента Бойака, к северу от Боготы. У этого кооператива также имеются связи с DGFK. Художественными ремеслами здесь заняты более 100 женщин.
ПОМНИТЕ, что
...покупая представленные здесь изделия, имеющие высокую художественную ценность, вы не только поддерживаете мероприятия, приносящие доход населению пенджабского региона, но и приобретаете уникальный образец традиционной культуры страны.
Одноразовым либо многократным перечислением некоторой денежной суммы вы поддержите дальнейшую работу проекта развития сельской местности. Вы можете указать одно из следующих назначений для вашего денежного перевода:
a) общее,
b) женский центр,
c) центр здоровья,
d) сельскохозяйственный проект,
e) проект по обеспечению питьевой водой,
f) проект развития центра для мужчин,
g) школьный проект,
h) проект развития туризма.
Переводы следует направлять на следующий счет:
Получатель: ...
Счет №.: ...
Название банка: ...
Пароль: 3S-Foundation / SentaSillerStiftung
назначение: (смотри вышеуказанные пункты от a) до h))
или отправьте чек на предъявителя по адресу
Labels: Куклы Hародов Mира
posted by S A J Shirazi @ 9:07 AM,
,
Labels: Dolls of the World, Images
posted by S A J Shirazi @ 7:12 PM,
,
Labels: Dolls, Dolls of the World, Products
posted by S A J Shirazi @ 1:35 PM,
,